حِفاظتِ بائبل Bible - Protection

حِفاظتِ بائبل 
آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارا کلام اور ہماری گفتگو ہماری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے- جو کچھ ہمارے دل میں ہوتا ہے وہی ہماری زُبان پر آتا ہے- لوگ ہمارے کلام کے وسیلے سے پہچانتے ہیں کہ ہم کِس قسم کے انسان ہیں- ہم ایک عالِم شخص سے عالمانہ گفتگو کی توقع کرتے ہیں- اگر وہ جا ہلانہ باتیں کرے تو ہم فورا کہتے ہیں کہ یہ کیسا آدمی ہے؟ بعینہ ہم خدا کے کلام سے وہی توقع کرتے ہیں جو خدا سے کرتے ہیں- کیوں؟ اس لئے کہ کلام کسی کہ ذات کا آئینہ دار ہوتا ہے- جس طرح خُدا سچّا ہے، اُسی طرح اُس کا کلام سچّا ہے- جس طرح وہ لا تبدیل ہے اُسی طرح اُس کا کلام لا تبدیل ہے- بریں بِنا خداوند کریم نے جب اپنا کلام دیا تو لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ اس کے کلام کو کم کرنے یا بڑھانے کی جسارت کبھی نہ کریں- خدا نے حضرت سلیمان کی معرفت فرمایا: ”تُو اس کے کلام میں کچھ نہ بڑھانا“ )امثال – (6:30 حضرت موسٰی کی معرفت خدا نے لوگوں سے کہا کہ: ”جس بات کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کو میں تم کو بتاتا ہوں مان سکو“ )استشنا - (2:4 اِس حکم میں واضح طور پر دو باتوں کی ممانعت کی گئی ہے- ایک یہ کہ خُدا کے کلام میں کچھ بڑھایا نہ جائے اور دوسری یہ کہ اس میں سے کچھ کم بھی نہ کیا جائے، اور اس حکم کو نہ ماننے کی سزا بھی مقرر کی گئی- ہمیں مکاشفہ کی کتاب میں جوکہ بائبل کی آخری کتاب ہے یہ عبادت ملتی ہے: ”میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اس کتاب کی نبّوت کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خدا اِس کتاب میں لکَھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا- اور اگر کوئی اِس نبّوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خُدا اُس زندگی کے درخت اور مُقدّس شہر میں سے جن کا اِس کتاب میں ذکرہے اُس کا حصّہ نکال ڈالے گا“ - (19-18:22) ایک بات بالکل صاف ہے کہ وہ شخص جو کتابِ مُقدّس پر ایمان رکھتا ہے اُس میں سے گھٹانے یا اُس میں بڑھانے کی سوچ بھی نہیں سکتا، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اُس پر ایمان ہی نہیں رکھتا- یہ ناپاک جسارت وہی کرے گا جو اس کا دشمن ہے اور اُسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے- پھر خُدا نے یہ بات صرف انسان پر ہی نہیں چھوڑی بلکہ اپنے انبیائے کرام کی معرفت جتلا دیا کہ میرا کلام کبھی نہیں بدل سکتا- چنانچہ یسعیاہ نبی خدا سے آگاہی پاکر فرماتے ہیں: ”ہاں گھاس مُرجھا جاتی ہے- پُھول کمُلاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے“ )یسعیاہ - (8:40 چونکہ خدا خود لا تبدیل ہے اِس لئے اُس کا کلام بھی لا تبدیل ہے- پھر خدا، زبور 34:89 میں فرماتا ہے کہ: ”مَیں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا اور اپنے منہ کی بات کونہ بدلوں گا-“ اب خداوند مسیح کی گواہی بھی ملا خطہ فرمائیں- آپ نے فرمایا: ”کتابِ مقدّس کا باطل ہونا ممکن نہیں“ )یوحنّا - (35:10 ایک اَور مقام پر فرماتے ہیں کہ: ”آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی) “متی -(35:24 مزید فرمایا: ”میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پُورا نہ ہو جائے“ )متّی – (18:5 جب ہم اِن حوالہ جات کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت اُبھر کر آتی ہے کہ خدا کا کلام، خواہ وہ توریت میں یا کسی اَور صحیفے میں مندرج ہے یا المسیح کی تعلیمات کی صورت میں ہے بدل نہیں سکتا- پس جب وہ بدل نہیں سکتا تو لازماً پورا ہوگا- بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں نے مِل کر کتابِ مُقدّس میں ردو بدل کیا ہے- یہ محض ایک مفروضہ ہے- چونکہ معترضین مسیحی مذہبی تاریخ اور مسیحی کُتب سے واقف نہیں ہوتے اس لئے صرف سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں- ہمارے پاس متعدد ثبوت ہیں جن سے ظاہر ہے کہ بائبل مُقدّس جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے وہی ہے جو اُس وقت تھی- مثلا: 1-1947 میں اُردن کی وادی قمران سے کچھ قدیم نسخے ہاتھ کے لکھے ہوئے ملے ہیں- جب ہم اِن نسخوں کا بائبل کے موجودہ متن سے مقابلہ کرتے ہیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بائبل مُقدّس ہم تک محفوظ حالت میں پہنچی ہے اور اِس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی- علاوہ ازیں بائبل مقدس کے مختلف قلمی نسخے بھی موجود ہیں- مثلا نسخہ سکندریہ جو تقریبا 325 میں لکھا گیا، نسخہ واتکانی جو 300 میں تحریر ہُوا، نسخہ سینا جو چوتھی صدی عسیوی میں لکھا گیا اور نسخہ افرایئمی جو 450 میں لکھا گیا- یہ پرانے نسخے اب بھی موجود ہیں- علماء نے اِن کا مقابلہ موجودہ بائبل مُقدّس سے کیا ہے اور اِس نیتجہ پر پہنچے ہیں کہ بائبل آج بھی ہمارے پاس اُسی صورت میں محفوظ ہے جیسے کہ شروع میں تھی- 2- خداوند مسیح کے آسمان پر جانے کے بعد شاگردوں نے خداوند کے فرمان کے مطابق دوسرے علاقوں اور قوموں میں انجیل کی منادی شروع کی- جُوں جُوں کلام پھیلتا گیا، اِس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ انجیل کا ترجمہ لوگوں کی زبان میں کیا جائے- چنانچہ علماء نے پرانے اور نئے عہدناموں کا ترجمہ مختلف قوموں کی زبانوں میں کیا- اس وقت بائبل یا اِس کے حِصّوں کا تقریباً 2000 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے- ان تراجم کی موجودگی میں جو مختلف ممالک میں مختلف لوگوں کے ہاتھ میں اُس وقت موجود تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی بائبل مُقدّس میں تحریف کرے؟ کوئی اپنے نسخے میں تو کرسکتا تھا لیکن تمام دنیا کے تراجم میں کیسے کرسکتا تھا؟ یہ ناممکن امر ہے- 3- پھر ہمارے پاس آبائے کلیسیا کے وہ اقتباسات ہیں جو انہوں نے اپنی تحریرات میں کتاب مُقدّس میں سے پیش کئے- اور صرف یہی نہیں بلکہ مخالفین نے بھی مسیحیت کے خلاف جو کتابیں لکھیں اُن میں بھی انہوں نے بائبل سے اقتباسات پیش کئے- اُن اقتباسات کا جو بائبل کے حامیوں اور مخالفوں نے پیش کئے موجودہ بائبل سے مقابلہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اب بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے کہ اُس وقت تھے- 4- اور مزید یہ کہ جس طرح ہر مزہب کے لوگ اپنی اپنی متبرک کتابوں سے پیار کرتے ہیں اور اُس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرتے ہیں، اُسی طرح یہودی اور مسیحی بھی اپنی کتب مُقدّسہ کو پیار کرتے ہیں- چنانچہ یہ بات عقل سلیم کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتی کہ ایک شخص جو ایک کتاب کو کلاُم الّٰلد مانے اور اُس پر ایمان بھی رکھے وُہ اُس میں تحریف کرے گا! ہم مسیحی بھی اپنی کتب مُقدّسہ کو ویسے ہی عزیز رکھتے ہیں جس طرح کہ دیگر مزاہب کے پیروکار، اس لئے کبھی کوئی مسیحی یہ جسارت نہیں کرسکتا اور امر واقعہ یہ ہے کہ کبھی کِسی مسیحی نے تحریف کی ہی نہیں- پس درجِ بالا اُمور کی روشنی میں یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بائبل مُقدّس میں کبھی تحریف نہیں ہوئی- یہ خدا کا کلام ہے جو مختلف انبیا کی معرفت ہم تک پہنچا ہے- اور جس طرح کہ خدا نے بتایا کہ اُس کا کلام بدل نہیں سکتا، بائبل مُقدّس بھی نہ تبدیل ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے- 
حاصِل کلام عزیز قارئین !
آپ نے مطالعہ کے دوران پیش کردہ دلائل کی روشنی میں محسوس کیا ہوگا کہ بائبل مُقدّس حقیقتاً خدا کا کلام ہے اور ردو بدل یا تحریف و تخریب سے قطعاً پاک ہے جیسا کہ بعض لوگ جنہیں تحقیق و تفتیش سے چنداں غرض نہیں یا جو حقیقتِ حال سے نا واقف ہیں الزام لگاتے ہیں- بائبل مُقدّس اپنا ثبوت آپ ہے- یہ اپنی حقانیت اور صحت کے لئے کسی خارجی ثبوت کی محتاج نہیں- اس کی اندرونی شہادت اتنی زبردست ہے کہ اُسے رد کرنا آسان نہیں- مثلا اِس کی کتب اور مضامین میں جو وحدت ویگانگت پائی جاتی ہے اُس کی مثال دنیا میں کسی کتاب سے پیش نہیں کی جاسکتی- روئے زمین پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس کے متعدد مصنفین ہونے کے باوجود اُس میں ایسا تسلسل پایا جائے گویا کہ ایک ہی کتاب ہے- اگر آپ خالی الزہن ہوکر بائبل مُقدّس کو شروع سے آخر تک پڑھیں تو آپ بھی یہ محسوس نہ کرسکیں گے کہ آپ متفرق کتب پڑھ رہے ہیں- اِن میں حیرت انگیز یگانگت پائی جاتی ہے جو ایک دیانتدار قادی کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں رہ سکتی- پھر اس کی پیشگوئیاں اِس کے الہامی ہونے کا زندہ و جاوید ثبوت ہیں- اِس میں سینکڑوں پیشگوئیاں حالات واشخاص اور خاص طور پر حضور المسیح کی ذات کے بارے میں پائی جاتی ہیں- یہ پیشگوئیاں سینکڑوں سال پیشہتر کی گئی تھیں جن میں سے بیشتر حرف بحرف پوری ہوچکی ہیں- صرف ایک دن میں یعنی حضور المسیح کی تصلیب کے دن 33 پیشگوئیاں پوری ہوئیں- باقی ماندہ پیشگوئیاں بھی اپنے وقت کے مطابق پوری ہوتی جارہی ہیں- کیا یہ اس بات کا بیّن ثبوت نہیں کہ بائبل مُقدّس خدا کا کلام ہے؟ نیز اس کی اثر پزیری ایک عالمگیر حقیقت ہے- بائبل مُقدّس نے ہر زمانے میں ہر قوم کو متاثر کیا ہے- دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو بائبل کے ثمرات سے بہرہ ور نہ ہوئی ہو- جہاں کہیں بائبل پہنچی وہاں کی اقوام کی تقدیر بدل گئی- وہ وحشی قومیں جو ننگِ انسانیت تھیں، بائبل مُقدّس کے سایہ عاطِفت میں آتے ہی مُہذب بن گہیئں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگہیئں- بائبل مُقدّس کی تعلیمات بھی لاثانی ہیں- مثلاً کب کسی نے کہا کہ”اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو“؟ لیکن جو بات اِسے سب سے زیادہ ممتاز بناتی ہے وہ راہِ نجات کی پیشکش ہے- اس کتاب میں انسان کی نجات کے منصوبے کو بڑی وضاحت اور قطعیت سے بیان کیا گیا ہے- اِس منصوبے کا آغاز آدم کے گناہ میں گرنے پر ہُئُوا اور المسیح کے کفارہ میں پایہ تکمیل کو پہنچا- اِن تمام امور سے صاف ظاہر ہے کہ بائبل مُقدّس خدا کا کلام ہے اور ہم تک لاخطا پہنچا ہے- آپ سے درخواست ہے کہ آپ خود بائبل مُقدّس کا مطالعہ کرکے ہمارے دعوے کو جانچئے اور بائبل کی برکات سے فیض یاب ہویئے-